پہلی جنگِ عظیم ۱۹۱۴ء
سے لے کر ۱۹۱۸ء تک مسلسل جاری رہ کر اپنی
تمامتر تباہیوں، ناگفتہ بہ بربادیوں، بیشمار انسانی
ہلاکتوں، بے انتہا خونریزیوں اور قابلِ افسوس سفاکیوں کے بعد ۱۱/نومبر
۱۹۱۸ء کو ایک ہمہ گیرمصائب و معاہدے کے تحت
بند ہوئی۔
جنگ بندی کے بعد حکومت کے سنگ دلانہ
رویوں، رولڈ ایکٹ کمیٹی کے ظالمانہ قوانین اور ڈیفنس
اِن انڈیا (قانونِ تحفظ ہند) کی غیر مناسب تجاویز سے
ہندوستانیوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی، دلوں میں انتقام کی
آتش بھڑک اٹھی، سینے غیظ و غضب سے لبریز ہوگئے، پیمانہٴ
صبر چھلکنے لگا، ذلت کی زندگی پرموت کو ترجیح دینے کے لیے
کمربستہ ہوگئے۔
الغرض! بدیشی ظالموں کے شکنجہٴ
استبداد سے خلاصی کی ہر ممکن تدبیر کو روبہ عمل لانے کا عزمِ
مصمم کرلیا۔
اس عالمِ کسمپرسی میں مولانا
ابوالکلام آزاد اور مہاتماگاندھی اہالیانِ ہند کی رہبری و
قیادت کے لیے میدانِ عمل میں آئے ، اور ان دونوں محبوب و
ہر دلعزیز رہنماوٴں نے حکومت سے نبرد آزما ہونے اور دولت بل کی
مخالفت کے لیے یکم مارچ ۱۹۱۹ء کو بمبئی
میں ستیہ گرہ سبھا قائم کی اور اس کے ساتھ ہی سول ڈیفنس
رویڈنس (سول نافرمانی) کو بھی پروگرام میں داخل کیا۔
تمام اہلِ ہند نے بلا امتیازِ
فِرَقْ و مذاہب ان دونوں پیشواوٴں کے قائدانہ پرچم تلے جمع ہوکر تائید
و اتفاق کا نعرہ لگایا، اور ہر طرح سے تعاون دینے کا حلف اٹھایا۔
ستیہ گرہ اور سول ڈیفنس رویڈنس
کے اساسی ارکان میں کثیر تعداد میں گرفتاریاں دے کر
جیلوں کو بھرنا، سرکاری عہدوں سے استعفا دینا، کارکنوں کو
اسٹرائک کے لیے آمادہ کرنا، جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکالنا، دفاتر و
محکمہ جات پر عوامی مظاہرے کرنا، نافذ شدہ قوانین کی پامالی
کرنا، ہمہ گیر پیمانے پر بند اور ہڑتالیں کرکے اربابِ حکومت کو
تنگ کرنا وغیرہ امور شامل تھے؛ چناں چہ پروگرام کے مطابق ستیہ گرہ اور
سول نافرمانی کی اسکیموں پر ہر چہار جانب عمل درآمد شروع ہوگیا۔
۳۰/ مارچ ۱۹۱۹ء
اور ۶/اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر و غیرہ
(پنجاب) میں ہمہ گیر پیمانے پر بند اور ہڑتالیں کی
گئیں، حاکموں کو سخت و سست جملوں سے نوازا گیا، دفاتر و محکمہ جاتی
عمارتوں میں توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی گئی۔
ادھر سی آئی ڈی اہلِ
پنجاب کی تمام حرکتوں سے حکامِ بالا کو آگاہ کرتی رہی؛ اس لیے
حکام و پولیس کی زیادہ تر توجہات پنجاب ہی کی جانب
مبذول رہیں۔ زدوکوب، شدت و سخت گیری اور جلاوطنی کی
وارداتیں شروع کر دی گئیں۔
۳۰/ مارچ اور ۶/اپریل
کی ہڑتالوں کے بعد عوامی گرفتاریوں کے علاوہ پنجاب کے دو ممتاز
و محبوب لیڈروں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ مان
کو گرفتار کرکے جلا وطن کردیا گیا؛ نیز اسی دوران مہاتما
گاندھی کی گرفتاری کی بھی خبر اڑ گئی۔
اہلِ پنجاب کے نزدیک ان کے محبوب لیڈروں
کی گرفتاری اور جلاوطنی ناقابلِ برداشت تھی؛ اس لیے
وہ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گئے، ان کے مشتعلانہ رخ اور منتقمانہ
جذبات کو بے قابو محسوس کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب نے مرکزی سرکار سے ۱۳/اپریل
کو مارشل لاء کے نفاذ کی درخواست کی؛ چناں چہ ۱۵/اپریل
۱۹۱۹ء کو لاہور اورامرتسر میں مارشل لاء نافذ کردیا
گیا۔
لیکن عوام مارشل لاء کی حدوں
کو توڑ کر گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آگئے؛ نعرے بازیوں، جوشیلے فقروں،
طنزیہ جملوں سے پنجاب بالخصوص امرتسر کے گلی کوچے گونج اٹھے؛ مجمع نے
جذبات کی رَو میں بہہ کر انجام کی پرواہ کیے بغیر ایک
بینک پر حملہ کردیا، عمارتوں کو نذرِ آتش کردیا،ملازمین
کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس طرح مختصر سی یورش و یلغار
کے بعد لوگ گھروں کو واپس چلے گئے۔
جنرل ڈائر فرنگی فوج کا ایک
اعلیٰ ترین کمانڈر ہونے کی حیثیت سے ۲/لاکھ
فوج کے ہمراہ فوراً امرتسر پہنچا، اور کمانڈرانہ غرور اور متکبرانہ لب و لہجہ میں
یہ اعلان کیا کہ ․․․․
”شہر کے بازاروں میں یا شہر
کے کسی حصہ میں یا شہر کے باہر کسی وقت بھی کسی
قسم کا جلوس نکالنے کی اجازت نہیں، اس طرح کے جلوس اور چارآدمیوں
کے اجتماعات کو خلافِ قانون سمجھا جائے گا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہتھیاروں
کے ذریعہ منتشر کر دیا جائے گا۔
جب جنر ل ڈائر فوجی دستوں کے ہمراہ
شہر کے گلی کوچوں کا گشت لگاتے ہوئے مذکور ہ بالا اعلان کی خود ہی
تشہیر کرتے ہوئے ۱۲/بجکر ۴۰/ منٹ پر اپنی قیام
گاہ باغ میں پہنچا تو اسے پولیس کی خفیہ خبر رساں ایجنسی
نے یہ اطلاع دی کہ آج سوا چار بجے جلیا نوالہ باغ میں
اجتماعی جلسہ ہونے والا ہے، جنرل ڈائر اسی وقت مظاہرین کے خون
سے قحط زدہ باغ کی تشنگی بجھانے کی ٹھان لی۔ جب
جلسہ کا وقتِ مقررہ قریب ہوا تو چاروں طرف سے لوگ کثیر تعداد میں
باغ کی طرف جوق در جوق جانے لگے اور آن کی آن میں پندرہ ہزار کا
مجمع اکٹھا ہوگیا؛ عین اسی وقت جنرل ڈائر بھی، ہٹلرانہ
رعب و وقار اور چنگیزانہ غرور اور نادر شاہانہ مزاج و دماغ سے مر صع ہوکر
خون آشام فوج کے ساتھ جلسہ گاہ پہنچ گیا۔ ہمہ نوع جنگی اسلحوں
کے علاوہ مشین گن بھی ساتھ تھی؛ لیکن باغ کا راستہ تنگ
ہونے کی بنا پر اسے باہر ہی راستہ پر کھڑا کر دیا گیا۔
فوج کو مختلف ٹولیوں میں تقسیم
کرکے جنگی مورچوں کی طرح پوزیشن سنبھالنے پر مامور کرنے اور با
غ کی چوطرفہ حصار بندی کرا لینے کے بعد اس نے جلسہ گاہ پر ایک
نظر ڈالی، اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حکام اور حکومت کے
خلاف اشتعال انگیز و پرجوش تقریر کر رہا ہے اور مجمع ہمہ تن گوش ہے، یہ
منظر دیکھ کر اس کے کمانڈ رانہ غر ور کو مہمیز لگی، اس کے تن
بدن میں آگ لگ گئی، اس کا پیمانہٴ صبر چھلک اٹھا، اس کا
پارہٴ غیظ و غضب آخری حد تک پہنچ گیا، اس کی خون
آشام فطرت مچلنے لگی، اس کی رگ وپے میں حاکمانہ خمار سرایت
کر گیا، تابِ ضبط پر اس کا قابو نہ رہا، اس کے جسم میں چنگیز و
ہلا کو کی روحیں حلول کر گئیں، اس کے دماغ میں نادر شاہی
درندگی رقص کرنے لگی، اس کے سامنے ہٹلرانہ داروگیر کا نقشہ ابھر
آیا۔
بالآخر ظالم نے حاضرین کو منتشر
ہونے کی تنبیہ و اطلاع دیے بغیر مسلح فوج کو عام فائرنگ
کا حکم دے کر محوِ تماشا ہوگیا۔
پھر کیا تھا! سفید فام وحشیوں
کے لیے ایک بزمِ تفریح سج گئی، فرنگی سنگدلوں کے لیے
سامانِ کیف و سرور فراہم ہوگیا، جنرل ڈائر اور اس کے ار کانوں کے
ہونٹوں پر خفیف مسکراہٹ ابھری اور تدریجاً زور دار قہقہوں میں
تبدیل ہوگئی، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ہنگامہٴ صور بپا
ہوگیا، جلیانوالہ باغ ایک انسانی مذبح بن گیا، جلسہ
گاہ محشرستانِ قتل میں تبدیل ہوگئی، اجتماعی جلوس کا اسٹیج
مقتلِ عام کی صو رت اختیار کر گیا، انسانوں کا ٹھاٹھیں
مارتا ہوا سمندر لاشوں کا ڈھیر بن گیا، حاضرینِ بزم مرغِ بسمل کی
طرح تڑپنے لگے، زلزلہٴ قیامت کا منظر سامنے آگیا، چنگیز و
ہلا کو کی روحیں بھی شرمانے لگیں، نادرشاہی سفاکی
منہ چھپانے لگی، ہٹلرانہ گیرودار ماند پڑ گئی، فرنگی
اقتدار کی دیوی اپنی مراد پاگئی، برطانوی دیو
کو مدت کے بعد پوری خوراک ملی، درندگانِ مغرب کی خون آشام فطرت
آسودہ ہوگئی، معافی کا دروازہ بند ہوچکا تھا، بھاگنے کے تمام ر استے
مسدود تھے، ناکے ناکے پر مسلح فوج تعینات تھی، سسکیوں ، آہوں، چیخ
و پکار اور نالہ و فغاں سے کہرام مچا ہوا تھا، موت کی سرا سیمگی
قابلِ دید تھی، وہ روحوں کو گولیوں سے چھیدنے کا منظر ہی
عجیب تھا، کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے، نوجوانوں کی لاشیں مرغِ نیم
جاں کی طرح تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو رہی تھیں، کمسن اور
نونہالانِ بزم خون اگل اگل کر جانیں دے رہے تھے، بڑے بوڑھے تو کراہنے اور آہ
کرنے کی بھی تاب نہ لاسکے، کُشتگانِ وطن سے جلیا نوالہ باغ بھر
گیا، شہیدانِ وفا کے خونوں سے سرزمینِ امرتسر لالہ زار ہوگئی،
یورشِ تاتار کی ایک جھلک نگاہوں میں گردش کرنے لگی،
بخارا اور سمرقند کے قتلِ عام کی یاد تازہ ہوگئی، پنجاب میں
بغداد و اندلس کی تاریخِ قتل و کُشت دہرا دی گئی، سقوطِ
غرناطہ کی رودادِ حزیں کا عکسِ کامل سامنے آگیا اور تاریخِ
ہند میں ایک سنگین اور خونیں باب کا اضافہ ہوگیا۔
محبانِ چمن کے چوڑے چکلے سینوں پر
گولیوں کی موسلا دھار بارش ہوتی رہی، مشین گنیں
ہلاکت و تباہی کے مہیب شعلے بھڑکاتی رہیں، بہیمیت
و درندگی کا یہ دردناک سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا،
تاآں کہ فوج نے گولیاں ختم ہو جانے پر کفِ افسوس ملتے ہوئے نہتا رہ جانے کا
گلہ کیا، تو جنرل ڈائر اپنی فتح و ظفر مندی کا جشنِ زریں
مناتے ہوئے۔ انگریزی موٴرخ ٹامسن کے بقول پندرہ سو مقتولین
اور ایک معتبر روایت کے مطابق بارہ سو زخمیوں کو مقتلِ انسانی
میں چھوڑ کر یہ بے رحمانہ و سنگ دلانہ حکم نافذ کرتے ہوئے اپنی
قیام گاہ کو فر حاں و شاداں روانہ ہوا کہ یہاں سے زخمیوں کو
ہسپتالوں میں اور مقتولین کو برائے تجہیز و تکفین لے جانے
کی بالکل اجازت نہیں۔
اس غم انگیز و اَلم خیز خونیں
معرکہ کی تفصیلات جاننے کے لیے پتھر کا کلیجہ، مادہٴ
احساس سے خالی جگر، اندیشہٴ فساد سے بری ذہن و دماغ اور
آنسووٴں سے خشک آنکھوں کی ضرورت ہے، تمثیلاً صرف ایک ایسی
ستم رسیدہ خاتون کی رودادِ غم سپردِ قرطاس کی جا رہی ہے
جس کا سرتاجِ حیات ڈائر انہ سفاکیت کا شکار ہوا تھا۔
مسٹر ٹامسن کے سوال کر نے پر اس زخم خوردہ
خاتون نے اپنی خون بار آنکھوں کو پونچھا،غمزدہ چہرے کو چھپایا، ہچکیوں
کو ضبط کیا، دل پر صبر و تحمل کا گراں بار پتھر رکھا، قوتِ ہوش وحواس کو جمع
کیا ، تابِ سخن پر بمشکلِ تمام قابو حاصل کیا، ڈگمگاتے قدموں
کوسنبھالا،لرزہ بر اندامانہ کیفیت پر قدرے کنٹرول کیا، پھر
لڑکھڑاتی زبان سے دردوکرب بھرے لہجے میں با دلِ ناخواستہ با یں
طورحکایت افشاں ہوئی کہ․․․․
گولی چلنے کے کچھ عرصہ کے بعدمجھے
اپنے بازارمیں پتہ چلاکہ ہزاروںآ دمی قتل کردیے گئے ہیں،یہ
سن کر میں پریشان ہوئی اورمیں نے دل میں ارادہ کیا
کہ باغ میں فوراً پہنچنا چاہیے؛ چناں چہ ہمسایہ عورتوں کے ہمراہ
وہاں پہنچی جہاں پرتمام جگہ کو مردہ لاشوں سے بھراہوا پایا، میں
نے اپنے مقتول خاوند کی لاش کو ان میں ڈھونڈھنا شروع کیا؛ چناں
چہ لاشوں کے انبار کے نیچے سے میں نے اپنے شوہر کی لاش کو باہر
کھینچ کر نکالا، وہ تمام جگہ خون کا تالاب نظر آتی تھی، میں
نے اس لاش کو اوپر پہنچانے کے لیے امداد کی تلاش کی؛ لیکن
ناکام رہی، آخر کار مایوس ہوکر واپس آگئی، اور اپنے خاوند کی
لاش کے پاس بیٹھ کر تمام رات اس طرح گذار دی ، جہاں پر کتوں کی
وجہ سے اکثر مجھے چتھری استعمال کرنی پڑتی تھی، رات کے
دوبجے ایک زخمی سکھ کے کراہنے کی آواز سن کے اس کے پاس گئی
اور اس کی ٹانگ کو ٹھیک کرکے رکھ دیا،جس سے اس غریب کو
افاقہ ہوا، وہاں بارہ سال کا ایک زخمی بچہ بھی تھا جو تمام شب
روتا رہا ،اور مجھ سے باربار التجا کرتا رہا کہ میں اس کے پاس بیٹھی
رہوں؛ کیوں کہ وہ حالتِ تاریکی میں ڈرتا تھا، پاس ہی
میں ایک اور زخمی تھا جو نہایت درد ناک طریقہ سے
تمام رات پانی کے لیے التجا کرتا رہا، میں نے ہر چند پانی
مہیا کرنے کی کوشش کی؛ لیکن ناکام رہی، تمام رات
زخمیوں کی چیخیں سنتی رہی، کتوں کے بھونکنے
اور گدھوں کے ہنہنانے کی آوازیں آتی رہیں۔
یہ تو ایک مصیبت زدہ
خاتون کی داستانِ رنج و الم تھی، اس طرح کی بے انتہا ستم خوردہ
خواتین کی رودادیں چمنستانِ تاریخ میں بکھری
پڑی ہیں، جن کے احاطہ وشمار کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔
الغرض! استخلاصِ وطن کی جد وجہد میں
بے شمار سہاگنوں کو بیوگی کا لقب دینے، معصوم نونہالوں کو یتیمی
کا ابدی تاج پہنانے، پُر رونق شہروں کو قبرستانوں میں تبدیل
کرنے، ہنستے مہکتے محلوں کو ماتم کدوں کا رنگ وروپ دینے ، مادرِ وطن کی
غیرت وناموس پر غیر محدود فرزندوں کو قربان کرنے ، حبِِّ نشیمن
کے جرم میں تن من دھن کو بطورِ جرمانہ پیش کرنے، سنگدلانِ فرنگ کے
انسان خوروں کو اَن گنت وفادارانِ ہند کے ذریعہ خوراک بہم پہنچانے، یورپی
مظالم کی چکی میں صدیوں تک پسنے، پے بہ پے قیدوبندکی
صعوبتیں جھیلنے، دارورسن کے پھندوں کو فرحاں وشاداں چومنے ، صعوبتوں
اور مشقتوں کی اذیت فشاں بھٹیوں میں ماہئِ بے آب کی
طرح تپانے، مصائب وآلام کی دشوار ترین گھاٹیوں سے گذرنے، خونِ
انسانی کے دریائے ناپید اکنار میں صدیوں تک مسلسل تیرنے
کے بعد، کاروانِ آزادی ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء
کے ساحل پر پہنچ کر اس گوہرِ مراد سے ہم آغوش ہوہی گیا ، جس کی
حصولیابی کے لیے ہمہ نوع وہمہ گیر مصیبتوں،پریشانیوں
اور اذیتوں کو داروئے شفا اورتریاقِ جان تصورکرتا رہا،․․․․․
مگر
امینِ
صبحِ وطن اے نگارِ آزادی
بہت
حسین ہے تیری تجلّیوں کا فسوں
مگر
حیات کے ماروں نے تجھ سے کیا پایا
وطن
کے راج دُلاروں نے تجھ سے کیا پایا
$ $ $
--------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3،
جلد:100 ، جمادی الاولی1437 ہجری مطابق مارچ 2016ء